UR/Prabhupada 0002 - پاگل آدمی کی تہذیب
Lecture on SB 6.1.49 -- New Orleans Farm, August 1, 1975
ہری کیشَ: ترجمہ... ”جيسے ايک سويا ہوا اِنسان اپنے خُواب ميں ظاھر ہوئے جِسم کے مُطابق کرم کرتا ہے، اور اُپنے آپ کو وه جِسم مان ليتا ہے، اِسی طرح، وه موجوده جِسم کو خُود کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ جو پیچھلی مذہبی یا غير مذہبی زندگی کی بنیاد پر موصول ہوا ہے، اور اپنے ماضی اور مستقبل کی زندگی کو جاننے کے قابل نہیں ہے۔“ پرَبُھوپادَ [شريمد بھاگوتم ٦.١.٤٩]: یتھااگیانس تَمَسَا(یُوکتَ)
اُپاستے ویَکتَم ايوا ہی
نہ ویدَ پُوروَم اَپَرَم
نَشٹَ-جَنمَ-سمرِتِس تَتھَا یہ ہے ہمارا مقام۔ یہ ہماری سائنس کی پيشرفت ہے، کہ ہم نہیں جانتے ”ميں اِس جَنمَ سے پہلے کیا تھا۔ اور اِس جَنمَ کے بعد کیا بنونگا؟“ جیون تسلسُل ہے۔ یہ ہے رُوحانی گیان۔ لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جیون تسلسُل ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ، ”اتفاق سے، مجھے یہ زندگی ملی ہے، اور موت کے بعد یہ ختم ہوجاۓ گا۔ ماضي، حال يا مُستقبِل کا کوٸ سوال ہی نہیں ہے۔ ہمیں مَزے کرنے دیں.“ اِس کو کہتے ہیں جہالت، تَمَسا، غیر ذمہ دارانہ زندگی. تو اَگيانَ. اَگیانَ کا مطلب ہے، وہ جِسے کوئی گیان نہیں ہے۔ اور کس کے پاس گیان نہیں ہے؟ اَب، تَمَسا. وہ جو تموگن میں ہیں۔ پرکرتي کے تین قسم، گُڻ ہیں: سَتوَ، رَجَ، تَمَس۔ سَتوَ-گُڻ کا مطلب ہے سَب کُچھ واضح ہے، پرَکاَشَ۔ جس طرح اَبھی آسمان بادل سے ڈھنکا ہوا ہے، دُھوپ واضح نہیں ہے۔ پر بادل کے اُوپر دُھوپ ہے، سَب کُچھ واضح ہے۔ اور بادل کے اَندر واضح نہیں ہے۔ اِسی طرح، جو لوگ ستوگُڻ ميں ہیں، اُن کے ليے سَب کُچھ واضح ہے، اور جو تمو-گُڻ میں ہیں، سَب کُچھ جہالت ہے، اور جو مخلوط ہیں، نہ رجو-گُڻ(ستوگُڻ) ، نہ ہی تمو-گُڻ، درميان میں ہوں، وه رجو-گُڻ کہلاتے ہیں۔ تين گُڻ. تمسا۔ تو وه صرف موجوده جسم میں دلچسپی رکھتے ہیں، پروا نہیں کرتے کہ کیا ہونے ہونے والا ہے ، اور کوئی علم نہیں ہے کہ وہ پہلے کیا تھا۔ ایک اور جگہ یہ بيان کيا گيا ہے: نوُنَم پرَمَتَھا کُورُتے وِکَرمَ(شريمد بھاگوتم ٥.٥.٤). پرَمَتَھا، جيسے پاگل آدمی. اسے نہیں پتہ کے وہ کیوں پاگل ہوگیا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے۔ اوراپنی سرگرمیوں کو وجہ سے آگے کیا ہونے والا ہے، وه نہیں جانتا. پاگل آدمی.تو یہ تہذیب، جديد تہذیب، پاگل آدمی کی تہذیب کی طرح ہے۔ نہیں گذشتہ زندگی کا کوئی علم نہیں ہے، اور نہ ہی اُنہیں مُستقبِل کی زندگی میں دلچسپی ہے۔ نوُنَم پرَمَتَھا کُورُتے وِکَرمَ(شريمد بھاگوتم ٥.٥.٤). اور پوری طرح سے پاپ کرموں میں لگے ہوۓ ہیں کيونکہ اُنہیں گذشتہ زندگی کا کوئی علم نہیں ہے۔ جس طرح ایک کتا . وه کُتا کیوں بنا, یہ وہ نہیں جانتا اور اُسے آگے کیا ملنے والا ہے؟ تو ایک کتا شاید اپنے پیچھلے جنم میں وزیر اعظم رہا ہو، ليکن جب اسے کتے کا جنم مل جاتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے۔ یہ بہی مایا کی ہی دوسرا اثرہے۔ پرَکشیپَ آتمِکا-شَکتی، آوَرَڻَ آتمِکا-شَکتی. مايا کے پاس دو شکتيان ہیں. اگر کوئ اپنے پیچھلے پاپ کرمون کی وجہ سے کتا بن گیا ہے، اور اگر اسے یاد ہے کہ ” میں وزیر اعظم تھا، اب میں کتا بن گیا ہوں“، اس کے لیے زنده رہنا ناممکن ہو جاۓ گا۔ اس ليے مایا اس کے علم کو ڈھانک دیتی ہے. مريتو۔ مريتو کا مطلب ہے سب کچھ بھول جانا۔ اِس کو کہتے ہیں مریتو. تو ہر دن اور رات ہمیں اس کا تجربہ ملا ہے ۔ جب رات کو ہم ايک الگ ماحول میں خواب ديکھتے ہیں، الگ زندگی، ہم اس جسم کے بارے میں بھول جاتے ہیں، کہ ”میں لیٹا ہوا ہوں. ميرا جسم ایک بہت اچھے کمرے میں لیٹا ہوا ہے، بہت اچھا بِستَر ہے.“ نہیں. فرض کریں کہ وہ سَڑک پرچل رہا ہے یا وہ پہاڑ پر ہے۔ تو وه فرض کررہا ہے، خواب میں، وه فرض کررہا ہے... ہر کوئی، ہم اِس جسم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم پیچھلے جسم کو بھول جاتے ہیں۔ تو یہ جہالت ہے۔ تو جہالت، جتنا زياده ہم اگیان(لاعلمی) سے گیان(علم) کی طرف بڑھینگے، وہ جیون کی کاميابی ہے۔ اور اگر ہم اپنے آپ کو اگیانتا میں رکھتے ہیں، یہ کامیابی نہیں ہے، یہ جیون کو تباہ کرنا ہے. تو ہماری کرشنہ چیتنا کی تحریک ایک انسان کو جہالت سے گیان کی طرف بڑھاتی ہے. یہ ہی ويدک ادب کا منصوبہ ہے: انسان کو آذاد کرنا کرشنہ بھکتون کے بارے میں بھگوت گیتا میں کہتے ہیں- سب کے لیے نہیں- تيشام اَھم سَمُددھَرتا مرِيتيُ- سَمسارَ-ساگَرات(بھگوت گيتا ١٢.٧) دوسرا (بھگوت گيتا ١٠.١١): تيشام ايوا نوکم پارتھم
اھم اجنانَ-جم تمح
ناش يامی آتمَ-بھاوَ-ستھو
جنانَ-دیپینَ بھاس وَتا خصوصی لوگوں کے لئے ، بھکتون کے لیے... وہ سب کے دل میں بیٹھے ہیں ، ليکن ايک بھکت جو کرشنہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کی وه مدد کرتا ہے. وہ مدد کرتا ہے. جو بھکت نہیں ہیں، انہیں اس سے کوئ مطلب نہیں ہے... وه جانورون کی طرح ئی ہیں- کھانا، سونا، جنسی زندگی، بچاءُ کرنا۔ وه کسی بھی چیز کی پروا نہیں کرتے، بھگوان یا بھگوان کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھنے کے لیے۔ ان کے لیے، وه سوچتے ہیں کہ کوٸ بھگوان نہیں ہے، اور کرشنہ بھی کہتے ہیں، ”ہاں، کوئ بھگوان نہیں ہے. آپ سو جاٶ.“ اس لیے سَت-سَنگَ ضروری ہے. یہ سَت-سَنگَ، ستَام پرَسَنگات. بھکت کی سنگت سے ہم بھگوان کے بارے میں اپنی تجسس جگاتے ہیں. اس لیے مراکز کی ضرورت ہے. یہ نہیں ہے کہ ہم بے کار ہی اتنے مراکزکھول رہے ہیں. نہیں . یہ انسانی معاشرے کے مفاد کے لئے ہے۔