UR/Prabhupada 0018 - گُرُو کے کمل چرنوں(پیروں) پر ثابت قدمی سے وفادار
Lecture on SB 6.1.26-27 -- Philadelphia, July 12, 1975
پربھوپاد: تو ہمیں اِس وقت کو استعمال کرنا چاہئے حل ڈھونڈنے کے لیے زندگی کا کہ ہم بار بار مر رہے ہیں اور پھر سے ایک اور جسم کو قبول کر رہے ہیں۔ تو وه کیسے سمجھیں گے جب تک وہ ایک مناسب گرو کے پاس نہیں آتے ہیں؟ اس لیے شاستر، کہتے ہیں تَد-وِگیانَ ارتھَم: ”اگر آپ آپنی زندگی کا اصل مسئلہ جاننا چاہتے ہیں اور اگر آپ خودشناسائی چاہتے ہیں کہ کیسے کرشن بھاونا بھاوت بن سکتے ہیں، کیسے شاشوت(ابدی)بن سکتے ہیں، گھر واپس جاسکتے ہیں، واپس بھگوان کے دھام(گھر)، تو آپ کو گرو کے پاس جانا ہوگا۔“ اور گرو کون ہیں؟ اِس کی وضاحت کی گئی ہے، بہت ہی آسان چیز۔ گرو کبھی بھی یہ خیالات نہیں بناتا کہ ”آپ یہ کرو اور مجھے پیسے دو اور آپ خوش ہو جائوگے۔“ یہ گروہ نہیں ہے۔ یہ بس پیسے کمانے کا دوسرا طریقہ ہے۔ تو، یہاں یہ کہا گیا ہے، موڈھا، ہر کوئی جو صرف جھوٹی خوشی میں رہ رہے ہیں، اجامِلَ کی طرح اپنے خود کے خیالات بنا رہے ہیں... کسی نے مان لیا ہے، ”یہ میرا فرض ہے،“ کسی نے... وہ بے وقوف ہے۔ آپ کو گرو سے اپنا فرض معلوم کرنا چاہیے۔ آپ ہر دن گا رہے ہیں، گُرُو-مُکھَ-پَدمَ-واکیہ، چِت تیتے کورِیا آئکیہ، آر نا کورِہو مَنے آشا۔ یہ زندگی ہے۔ یہ زندگی ہے۔ گُرُو-مُکھَ-پَد... آپ ایک سچے گرو کو قبول کریں، وہ جو بھی حکم دیتے ہیں، اُس کو پورا کریں۔ تب آپ کی زندگی کامیاب ہوگی۔ آر نا کورِہو مَنے آشا۔ آپ بدمعاش، آپ اور کسی چیز کی خواہش نہ کریں۔ کیا آپ روز نہیں گاتے؟ لیکن کیا آپ مطلب سمجھتے ہیں؟ یا آپ صرف گاتے ہیں؟ مطلب کیا ہے؟ کون سمجھائے گا؟ کوئی نہیں جانتا؟ ہاں، کيا معنی ہے؟
بھکت: ”میری صرف ایک ہی خواہش ہے کہ میرا مَن شُدھ(پاک) ہوجائے ميرے گرو کے منھ سے آنے والے لفظوں سے۔ اس کے علاوہ میری کوئی اور خواہش نہیں ہے۔“
پربھوپاد: ہاں۔ یہ حکم ہے۔ گُرُو-مُکھَ-پَدمَ-واکيہ، چِت تیتے کورِیا آئکیہ۔ اب چِتَ کا مطلب ہے شعور اور دِل۔ ”ميں صِرف یہی کروں گا، بس۔ ميرے گرو مہاراج نے مجھ سے کہا ہے، میں یہ کروں گا۔“ چِت تیتے کورِیا آئکیہ، آر نا کورِہو مَنے آشا۔ تو یہ میرا گھمنڈ نہیں ہے، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں، آپ کی تعليم کے لیے، میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس لیے جو بھی تھوڑی کامیابی آپ دیکھ رہے ہیں، میرے سب ہی گرو بھائیوں سے زیادہ، اُس کی یہی وجہ ہے۔ میرے پاس کوئی قابلیت نہیں ہے، ليکن میں نے اپنے گرو کے الفاظوں کو اپنی زندگی اور آتما کے طور پر قبول کیا۔ تو یہ حقیقت ہے۔ گُرُو-مُکھَ-پَدمَ-واکیہ، چِت تیتے کورِیا آئکیہ۔ ہر کسی کو یہ کرنا چاہیے۔ لکین اگر وہ مِلاتا(شامِل) ہے، تبديل کرتا ہے، تو وہ ختم ہوجائے گا۔ نہ کُچھ مِلانا، نہ کچھ تبدیلی۔ آپ کو گرو کے پاس جانا ہوگا- گرو کا مطلب ہے بھگوان کرشن کا شردھالو(عقیدت مند) سیوک(خدمت گار)، اور اُن کے حکم کو اپنائیں کہ کیسے اُن کی خدمت کرنی ہے۔ تب آپ کامیاب ہو۔ اگر آپ سوچتے ہیں، ”میں اپنے گرو کی نسبت بہت عقلمند ہوں، اور میں شامِل کر سکتا ہوں یا تبدیل کرسکتا ہوں،“ تو آپ ختم ہو جائیں گے۔ تو یہی ہے بس۔ اور اب، آگے گاٶ۔
بھکت: شرِی-گُرُو-چَرَنے رَتی، اي ئی سے اُت تَمَ-گَتی.
پربھوپاد: شرِی-گُرُو-چَرَنے رَتی، اي ئی سے اُت تَمَ-گَتی. اگر آپ اصل ترقی کرنا چاہتے ہیں تو، آپ کو گرو کے کمل چرنوں(پير) پر ثابت قدمی سے وفادار رہنا چاہیے۔ پھر؟
بھکت: جے پرَسادے پُورے سَروَ آشا۔
پربھوپاد: جے پرَسادے پُورے سَروَ آشا۔ یَسیہ پرَسادات... یہ پوری وئشنو فَلسَفَہ کی تعلیم ہے۔ تو جب تک ہم یہ نہیں کرتے، ہم مُڈھَ ہی رہیں گے، اور اس کی وضاحت اجامِلَ-اُپاکھیانَ میں کی گئی ہے۔ تو آج ہم یہ شلوک(آيت) پڑھ رہے ہیں، س ايوَم وَرتَمانَح اگیَح۔ پھر وہ کہتے ہیں۔ پھرویاسَ دیوَ کہتے ہیں کہ ”يہ بدمعاش اس میں قائم تھا، ناراين نام کے اپنے بیٹے کی سیوا میں مَشغُول۔ وہ نہیں جانتا تھا... ”یہ بے معنی ناراین کیا ہے؟“ وہ اپنے بیٹے کو جانتا تھا۔ لیکن ناراین اتنے رحیم ہیں کہ کیونکہ وہ لگاتار اپنے بیٹے کو بُلا رہا تھا، ” ناراین، براه کرم یہاں آئو، ناراین، براہ کرم یہ لو،“ تو کرشن نے سوچا کہ، ” یہ ناراین کا جاپ کررہا ہے۔“ کرشن بہت رحیم ہے۔ اس(اجامِلَ) کا مطلب کبھی یہ نہیں تھا کہ، ” میں ناراين کے پاس جا رہا ہوں۔“ وه اپنے بیٹے کو چاہتا تھا کیونکہ وه پيار کرتا تھا۔ ليکن اسے ناراین کے پوتر(پاک) نام کا جاپ کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے۔ اس لیے، اس کے مطابق، ہم نام بدل دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہر نام کا مقصد ہے کرشن کا داس(غلام) بننا۔ جيسے اُپيندرَ۔ اُپيندرَ کا مطلب ہے وامَنَ ديوَ۔ تو اگر آپ ”اُپيندرَ، اُپيندرَ“ بلاتے ہیں، یا اسی طرح کا کچھ، اس نام کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ تو اس کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔