UR/Prabhupada 0007 - کرِشنَ کی طرف سے روزی ملے گی: Difference between revisions

(Created page with "<!-- BEGIN CATEGORY LIST --> Category:1080 Urdu Pages with Videos Category:Prabhupada 0007 - in all Languages Category:UR-Quotes - 1974 Category:UR-Quotes - Lect...")
 
m (Text replacement - "(<!-- (BEGIN|END) NAVIGATION (.*?) -->\s*){2,}" to "<!-- $2 NAVIGATION $3 -->")
 
Line 8: Line 8:
[[Category:First 11 Pages in all Languages]]
[[Category:First 11 Pages in all Languages]]
<!-- END CATEGORY LIST -->
<!-- END CATEGORY LIST -->
<!-- BEGIN NAVIGATION BAR -- TO CHANGE TO YOUR OWN LANGUAGE BELOW SEE THE PARAMETERS OR VIDEO -->
<!-- BEGIN NAVIGATION BAR -- DO NOT EDIT OR REMOVE -->
{{1080 videos navigation - All Languages|Urdu|Prabhupada 0006 - Everyone Is God - Fool's Paradise|0006|Prabhupada 0008 - Krsna Claims That "I Am Everyone's Father"|0008}}
{{1080 videos navigation - All Languages|Urdu|UR/Prabhupada 0006 - ہر کوئی بھگوان ہے- جھوٹی خوشی|0006|UR/Prabhupada 0008 - کرِشنَ دعوی کرتے ہیں کہ ”میں سب کا پتا(باپ) ہوں“|0008}}
<!-- END NAVIGATION BAR -->
<!-- END NAVIGATION BAR -->
<!-- BEGIN ORIGINAL VANIQUOTES PAGE LINK-->
<!-- BEGIN ORIGINAL VANIQUOTES PAGE LINK-->
Line 20: Line 20:
<div dir="rtl">
<div dir="rtl">
<!-- BEGIN VIDEO LINK -->
<!-- BEGIN VIDEO LINK -->
{{youtube_left|lkye7d5R4RQ|Kṛṣṇa's Maintenance Will Come<br />- Prabhupāda 0007}}
{{youtube_left|lkye7d5R4RQ|کرِشنَ کی طرف سے روزی ملے گی<br />- Prabhupāda 0007}}
<!-- END VIDEO LINK -->
<!-- END VIDEO LINK -->


Line 34: Line 34:
براہمنَندَ: براہمن کسی بھی نوکری کو قبول نہیں کرتا ہے۔
براہمنَندَ: براہمن کسی بھی نوکری کو قبول نہیں کرتا ہے۔


پرَبھوپادَ: نہیں وه بھوک سے مَر جائے گا پر کوئی بھی نوکری قبول نہیں کرے گا۔ وہی براہمن ہے۔ کشَترِیَ بھی وہی، اور وئيش بھی۔ صِرف شُودرَ۔ ايک وئیش کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ وہ کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ تو ایک عملی کہانی ہے۔ ایک مِسٹَر نَندی، بہت، بہت وقت پہلے، کلکتا میں، وه کِسی دوست کے پاس گیا، کہ ”اگر آپ مُجھے سرمایہ(پیسے) دے سکیں، تو میں کوئی کاروبار شروع کرسکتا ہوں۔“ تو انہوں نے کہا ”آپ وئیش ہو؟ بیوپاری ہو؟“ ”ہاں۔“ ”او، آپ مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو؟ پيسے تو سڑک پر ہیں۔ آپ ڈھونڈ سکتے ہو-“ تو اس نے کہا، ”مجھے نہیں مِل رہے-“ ”آپ کو نہیں مل رہے؟ یہ کیا ہے؟“ ”یہ، یہ تو مَرا ہوا چوہا ہے۔“ ”یہ ہی آپ کا سرمایہ ہے۔“ تھورا دیکھیں۔ تو کلکتا میں اُن دِنوں طاعون(چُوہوں سے پھَیلنے والی بیماری) پھيلی ہوئی تھی۔ اِس لیے شہری حکومت نے اعلان کیا کہ جو بھی شہری حکومت کے دفتر پر مَرا ہوا چوہا لاۓ گا، اُسے دو آنے(سِکے) دیئے جائيں گے۔ اِس لیے وہ اُس مَرے ہوئے چوہے کے جسم کو لےکر آیا اور شہری حکومت کے دفتر میں دیا۔ اُسے دو آنے دیئے گئے۔ تو اُن دو آنو سے اُس نے کُچھ سَڑی ہوئی سُپاری خريدی، اور اُسے دھو کر اور چار پانچ آنو ميں بيچا۔ ايسے، کرتے، کرتے، کرتے، وه بہت اَمیر انسان بَن گیا اُن کے گھر کے لوگوں میں سے ایک ہمارا گروبھائی تھا۔ نَندی خاندان۔ یہی نَندی خاندان آج بھی، یہ روز چار سو، پانچ سو لوگوں کو کھانا کِھلاتے ہیں۔ ايک بڑا، امیرانہ خاندان۔ اور اِن کے خاندان کا اَصول ہے کہ جیسے ہی کوئی بیٹا یا بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے، پانچ ہزار رُپیے بينک میں جمع کیے جاتے ہیں، اور اُن کي شادی کے وقت، يہ پانچ ہزار رُپیے سود کے ساتھ وہ لے سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ، ملکیت میں اور کوئی بھی حِصا نہیں ہے۔ اور جو بھی خاندان میں رہتا ہے، اُسے کھانا اور رہائش مِل جاتی ہے۔ یہ اِن کے... اِس خاندان کو بنياد دینے والا، نَندی، اُس نے اپنے کاروبار کی شروعات ایک لال، ايک مَرے ہوئے چوہے سے کی تھی. يہ سچ میں حقیقت ہے، یہ سچ میں حقیقت ہے، تو اگر کوئی آزاد رہنا چاہتا ہے... میں نے کلکتا میں دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ غریب طبقے کے وئیش، اور صُبح کو وہ دال دال کا تھيلا لے کر، گھر گھر جاتے تھے۔ دال کی ضرورت ہر جگہ ہے۔ تو صُبح کو وه دال کا کاروبار کرتا ہے، اور شام کو وہ مٹی کے تیل کا ایک ڈِبا لے کر جاتا ہے۔ کہ شام کو ہر انسان کو ضرورت ہوگی۔ آج بھی آپ انڈیا میں دیکھوگے، یہ... کوئی بھی نوکری کی تلاش میں نہیں تھا۔ تھوڑا سا، جو کچھ بھی ہو اُس کے پاس، کچھ مونگ پھلی یا اُن مونگ پھلی کو بيچ کر، وه کچھ کر رہا ہے۔ بہرحال، کرِشنہ ہر کسی کو روزی دے رہا ہے۔ یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ ”یہ اِنسان مُجھے روزی دے رہا ہے۔“ نہیں۔ شاستر کہتا ہے، ایکو یو بَھُونام وِدَدھاتِ کامان۔ یہ کرِشنہ پر عقیدہ ہے، کہ ” کرِشنہ نے مجھے یہ زندگی دی ہے، کرِشنہ نے مُجھے یہاں بھیجا ہے۔ تو وہ مجھے میری روزی دے گا۔ اِس لیے میری قابیلیت کے مطابق، مجھے کچھ کرنے دو، اور اِس ماخذ کے ذریعے سے، کرِشنہ کی طرف سے روزی ملے گی۔“  
پرَبھوپادَ: نہیں وه بھوک سے مَر جائے گا پر کوئی بھی نوکری قبول نہیں کرے گا۔ وہی براہمن ہے۔ کشَترِیَ بھی وہی، اور وئيش بھی۔ صِرف شُودرَ۔ ايک وئیش کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ وہ کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ تو ایک عملی کہانی ہے۔ ایک مِسٹَر نَندی، بہت، بہت وقت پہلے، کلکتا میں، وه کِسی دوست کے پاس گیا، کہ  
 
”اگر آپ مُجھے سرمایہ(پیسے) دے سکیں، تو میں کوئی کاروبار شروع کرسکتا ہوں۔“
 
تو انہوں نے کہا ”آپ وئیش ہو؟ بیوپاری ہو؟“
 
”ہاں۔“
 
”او، آپ مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو؟ پيسے تو سڑک پر ہیں۔ آپ ڈھونڈ سکتے ہو-“
 
تو اس نے کہا، ”مجھے نہیں مِل رہے-“
 
”آپ کو نہیں مل رہے؟ یہ کیا ہے؟“
 
”یہ، یہ تو مَرا ہوا چوہا ہے۔“
 
”یہ ہی آپ کا سرمایہ ہے۔“
 
تھورا دیکھیں۔
 
تو کلکتا میں اُن دِنوں طاعون(چُوہوں سے پھَیلنے والی بیماری) پھيلی ہوئی تھی۔ اِس لیے شہری حکومت نے اعلان کیا کہ جو بھی شہری حکومت کے دفتر پر مَرا ہوا چوہا لاۓ گا، اُسے دو آنے(سِکے) دیئے جائيں گے۔ اِس لیے وہ اُس مَرے ہوئے چوہے کے جسم کو لےکر آیا اور شہری حکومت کے دفتر میں دیا۔ اُسے دو آنے دیئے گئے۔ تو اُن دو آنو سے اُس نے کُچھ سَڑی ہوئی سُپاری خريدی، اور اُسے دھو کر اور چار پانچ آنو ميں بيچا۔ ايسے، کرتے، کرتے، کرتے، وه بہت اَمیر انسان بَن گیا اُن کے گھر کے لوگوں میں سے ایک ہمارا گروبھائی تھا۔ نَندی خاندان۔ یہی نَندی خاندان آج بھی، یہ روز چار سو، پانچ سو لوگوں کو کھانا کِھلاتے ہیں۔ ايک بڑا، امیرانہ خاندان۔ اور اِن کے خاندان کا اَصول ہے کہ جیسے ہی کوئی بیٹا یا بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے، پانچ ہزار رُپیے بينک میں جمع کیے جاتے ہیں، اور اُن کي شادی کے وقت، يہ پانچ ہزار رُپیے سود کے ساتھ وہ لے سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ، ملکیت میں اور کوئی بھی حِصا نہیں ہے۔ اور جو بھی خاندان میں رہتا ہے، اُسے کھانا اور رہائش مِل جاتی ہے۔ یہ اِن کے... اِس خاندان کو بنياد دینے والا، نَندی، اُس نے اپنے کاروبار کی شروعات ایک لال، ايک مَرے ہوئے چوہے سے کی تھی.
 
يہ سچ میں حقیقت ہے، یہ سچ میں حقیقت ہے، تو اگر کوئی آزاد رہنا چاہتا ہے... میں نے کلکتا میں دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ غریب طبقے کے وئیش، اور صُبح کو وہ دال دال کا تھيلا لے کر، گھر گھر جاتے تھے۔ دال کی ضرورت ہر جگہ ہے۔ تو صُبح کو وه دال کا کاروبار کرتا ہے، اور شام کو وہ مٹی کے تیل کا ایک ڈِبا لے کر جاتا ہے۔ کہ شام کو ہر انسان کو ضرورت ہوگی۔ آج بھی آپ انڈیا میں دیکھوگے، یہ... کوئی بھی نوکری کی تلاش میں نہیں تھا۔ تھوڑا سا، جو کچھ بھی ہو اُس کے پاس، کچھ مونگ پھلی یا اُن مونگ پھلی کو بيچ کر، وه کچھ کر رہا ہے۔ بہرحال، کرِشنہ ہر کسی کو روزی دے رہا ہے۔ یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ ”یہ اِنسان مُجھے روزی دے رہا ہے۔“ نہیں۔ شاستر کہتا ہے، ایکو یو بَھُونام وِدَدھاتِ کامان۔ یہ کرِشنہ پر عقیدہ ہے، کہ ” کرِشنہ نے مجھے یہ زندگی دی ہے، کرِشنہ نے مُجھے یہاں بھیجا ہے۔ تو وہ مجھے میری روزی دے گا۔ اِس لیے میری قابیلیت کے مطابق، مجھے کچھ کرنے دو، اور اِس ماخذ کے ذریعے سے، کرِشنہ کی طرف سے روزی ملے گی۔“  
<!-- END TRANSLATED TEXT -->
<!-- END TRANSLATED TEXT -->
</div>
</div>

Latest revision as of 23:39, 1 October 2020



Lecture on SB 1.5.22 -- Vrndavana, August 3, 1974

براہمنَندَ: براہمن کسی بھی نوکری کو قبول نہیں کرتا ہے۔

پرَبھوپادَ: نہیں وه بھوک سے مَر جائے گا پر کوئی بھی نوکری قبول نہیں کرے گا۔ وہی براہمن ہے۔ کشَترِیَ بھی وہی، اور وئيش بھی۔ صِرف شُودرَ۔ ايک وئیش کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ وہ کوئی کاروبار ڈھونڈے گا۔ تو ایک عملی کہانی ہے۔ ایک مِسٹَر نَندی، بہت، بہت وقت پہلے، کلکتا میں، وه کِسی دوست کے پاس گیا، کہ

”اگر آپ مُجھے سرمایہ(پیسے) دے سکیں، تو میں کوئی کاروبار شروع کرسکتا ہوں۔“

تو انہوں نے کہا ”آپ وئیش ہو؟ بیوپاری ہو؟“

”ہاں۔“

”او، آپ مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو؟ پيسے تو سڑک پر ہیں۔ آپ ڈھونڈ سکتے ہو-“

تو اس نے کہا، ”مجھے نہیں مِل رہے-“

”آپ کو نہیں مل رہے؟ یہ کیا ہے؟“

”یہ، یہ تو مَرا ہوا چوہا ہے۔“

”یہ ہی آپ کا سرمایہ ہے۔“

تھورا دیکھیں۔

تو کلکتا میں اُن دِنوں طاعون(چُوہوں سے پھَیلنے والی بیماری) پھيلی ہوئی تھی۔ اِس لیے شہری حکومت نے اعلان کیا کہ جو بھی شہری حکومت کے دفتر پر مَرا ہوا چوہا لاۓ گا، اُسے دو آنے(سِکے) دیئے جائيں گے۔ اِس لیے وہ اُس مَرے ہوئے چوہے کے جسم کو لےکر آیا اور شہری حکومت کے دفتر میں دیا۔ اُسے دو آنے دیئے گئے۔ تو اُن دو آنو سے اُس نے کُچھ سَڑی ہوئی سُپاری خريدی، اور اُسے دھو کر اور چار پانچ آنو ميں بيچا۔ ايسے، کرتے، کرتے، کرتے، وه بہت اَمیر انسان بَن گیا اُن کے گھر کے لوگوں میں سے ایک ہمارا گروبھائی تھا۔ نَندی خاندان۔ یہی نَندی خاندان آج بھی، یہ روز چار سو، پانچ سو لوگوں کو کھانا کِھلاتے ہیں۔ ايک بڑا، امیرانہ خاندان۔ اور اِن کے خاندان کا اَصول ہے کہ جیسے ہی کوئی بیٹا یا بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے، پانچ ہزار رُپیے بينک میں جمع کیے جاتے ہیں، اور اُن کي شادی کے وقت، يہ پانچ ہزار رُپیے سود کے ساتھ وہ لے سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ، ملکیت میں اور کوئی بھی حِصا نہیں ہے۔ اور جو بھی خاندان میں رہتا ہے، اُسے کھانا اور رہائش مِل جاتی ہے۔ یہ اِن کے... اِس خاندان کو بنياد دینے والا، نَندی، اُس نے اپنے کاروبار کی شروعات ایک لال، ايک مَرے ہوئے چوہے سے کی تھی.

يہ سچ میں حقیقت ہے، یہ سچ میں حقیقت ہے، تو اگر کوئی آزاد رہنا چاہتا ہے... میں نے کلکتا میں دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ غریب طبقے کے وئیش، اور صُبح کو وہ دال دال کا تھيلا لے کر، گھر گھر جاتے تھے۔ دال کی ضرورت ہر جگہ ہے۔ تو صُبح کو وه دال کا کاروبار کرتا ہے، اور شام کو وہ مٹی کے تیل کا ایک ڈِبا لے کر جاتا ہے۔ کہ شام کو ہر انسان کو ضرورت ہوگی۔ آج بھی آپ انڈیا میں دیکھوگے، یہ... کوئی بھی نوکری کی تلاش میں نہیں تھا۔ تھوڑا سا، جو کچھ بھی ہو اُس کے پاس، کچھ مونگ پھلی یا اُن مونگ پھلی کو بيچ کر، وه کچھ کر رہا ہے۔ بہرحال، کرِشنہ ہر کسی کو روزی دے رہا ہے۔ یہ سوچنا ایک غلطی ہے کہ ”یہ اِنسان مُجھے روزی دے رہا ہے۔“ نہیں۔ شاستر کہتا ہے، ایکو یو بَھُونام وِدَدھاتِ کامان۔ یہ کرِشنہ پر عقیدہ ہے، کہ ” کرِشنہ نے مجھے یہ زندگی دی ہے، کرِشنہ نے مُجھے یہاں بھیجا ہے۔ تو وہ مجھے میری روزی دے گا۔ اِس لیے میری قابیلیت کے مطابق، مجھے کچھ کرنے دو، اور اِس ماخذ کے ذریعے سے، کرِشنہ کی طرف سے روزی ملے گی۔“