UR/Prabhupada 0012 - علم کا ذریعہ سننے سے ہونا چاہیے



Lecture on BG 16.7 -- Hawaii, February 3, 1975

ہم میں سے ہر ایک ناقص(غیر کامل) ہے۔ ہم اپنی آنکھوں پر بہت فخر کرتے ہیں: ”کیا آپ مُجھے دِکھا سکتے ہیں؟“ آپ کی آنکھوں میں کیا اہلیت ہے کہ آپ دیکھ سکیں گے؟ وه سوچتا نہیں ہے کہ ”میں اِس قابل نہیں ہوں، پھر بھی، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔“ یہ آنکھیں، او، یہ تو بہت ساری شرائط پر منحصر ہیں۔ ابھی بجلی ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ جيسے ہی بجلی بند ہوتی ہے، آپ ديکھ نہیں سکتے ہیں۔ تو کيا اہمیت ہے آپکی آنکھوں کی؟ آپ نہیں دیکھ سکتے کہ اِس دیوار کی دوسری طرف کیا ہورہا ہے۔

لہذا اپنے نام نہاد اندریوں(حواس) پر گيان(علم) کے ذریعے کے طور پر اعتماد نہ کريں۔ نہیں۔ گيان(علم) کا ذریعہ شرَوَن(سُننا) ہونا چاہئے۔ اِسے شروتی کہتے ہیں۔ اِس لیے ویدوں کا نام شروتی ہے۔ شروتی-پرَمانَ، شروتی-پرَمانَ۔ جیسے ایک بچا یا لڑکا جاننا چاہتا ہے کہ اُس کا پِتا(باپ) کون ہے. تو ثبوت کيا ہے؟ وه ثبوت ہے شروتی، ماں سے سُننا۔ ماں کہتی ہے ”يہ تمہارا پِتا(باپ) ہے۔“ تو وہ سٍنتا ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کیسے اُس کا باپ بنا۔ کيونکہ اُس کے جِسم کے نرمان(بننے) سے پہلے اُس کا پتا تھا، تو وه کيسے دیکھ سکتا تھا؟ تو ديکھنے سے، آپ پتہ نہیں لگا سکتے کے آپ کا پتا(باپ) کون ہے. آپ کو ادھيکاری(بااختيار) سے سُننا ہوگا۔ ماں بااخيتار ہے۔ اس لیے شروتی-پرَمانَ: ثبوت ہے سننا، ديکھنا نہیں۔ ديکھنا... ہماری ناقص(غير کامل) آنکھيں... بہت ساری رکاوٹیں ہیں۔ تو اِسی طرح، سيدھا تجربے کے ذريعے، آپ سچ کو حاصِل نہیں کرسکتے۔

سيدھا تجربہ(قياس آرائی) ہے۔ ڈراکٹر فروگ۔ ڈاکڻر فروگ قیاس آرائی کرتا ہے کہ ایٹلانٹک اوشن(بحر مُنجَمد شمالی) کیا ہے۔ وه کنويں میں ہے، تین فٹ کا کنواں، اور کسی دوست نے اُسے اطلاع دی، ”اوہ، میں نے وسیع پانی دیکھا ہے۔“ ”وہ وسیع پانی کیا ہے؟“ ”بحر منجَمد شمالی۔“ ”وه کتنا بڑا ہے؟“ ” بہت، بہت بڑا ہے۔“ اِس ليے ڈاکٹر فروگ سوچتے ہیں، ”شايد چار فٹ۔ یہ کنواں تین فٹ کا ہے۔ تو وہ شاید چار فٹ کا ہو۔ ٹھیک ہے پانچ فٹ۔ چلو، دس فٹ۔“ تو اس طرح سے، سوچتے ہوۓ، کيسے فروگ، ڈاکٹر فروگ وہ ائٹلانٹک سمندر يا پئسفِک سمندر کو کیسے سمجھے گا؟ کيا آپ سوچ بچار کے ذريعے ائٹلانٹک، پئسفک سمندر لنبائی اور چوڑائی کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟ تو سوچ بچار کے ذریعے، آپ نہیں کر سکتے۔ وه اس کائنات کے بارے میں بہت سالوں سے سوچ بچار کر رہے ہیں، کتنے ستارے ہیں، کيا ہے لنبائی اور چوڑائی، کہاں ہے... کسی کو بھی بھوتک(مادی) دنيا کا تک کچھ بھی نہیں پتا، اور روحانی دنیا کی تو بات ہی کیا کریں؟ وه پرے ہے، بہت پرے۔

پَرَس تَسمات تُ بھاو انيو اوَيکتو اوَیکتات سَناتَنَح(بھگود گيتا ٨.٢٠)۔ آپ کو بھگود گيتا میں ملے گا، کہ ايک اور پرکرتی(قدرت) ہے۔ یہ پرکرتی، جو آپ ديکھتے ہیں، یہ آسمان، ايک گول گُنبد، اسکے، اسکے اوپر، واپس پانچ عناصر کی پرتیں ہیں۔ یہ غلاف ہے۔ بلکل اسی ویسے ہی جيسے آپ نے ناریل دیکھا ہے۔ سخت غلاف ہے، اور اُس غلاف کے اندر پانی ہے۔ اِسی طرح، اِس غلاف کے اندر... اور غلاف کے بہار پانچ پرتیں ہیں، جو ايک دوسرے کی نسبت ہزار گنا بڑی ہیں۔ پانی کی پرت(تھ)، ہوا کی پرت، آگ کی پرت۔ تو آپ کو اِن تمام پرتوں کو بيندھنا ہوگا۔ تب آپ کو روحانی دنیا حاصل ہوگی۔ یہ تمام کائنات، لامعدود تعداد، کوٹِ۔ یَسیَ پرَبھا پرَبھَوَتو جَگَد-انڈَ-کوٹِ(برَھَمَ سَمہیتا. ٥.٤٠)۔ جَگَد-انڈَ کا مطلب ہے کائنات۔ کوٹِ، بہت سے لاکھوں کا جُھنڈ(خوشہ)۔ یہ ہے بھوتک(مادی) دنیا۔ اور اِس مادی دنيا سے پَرے ايک روحانی دُنیا ہے، ایک اور آسمان ہے۔ وه بھی آسمان ہے۔ اُسے پَرَويومَ کہا جاتا ہے۔ تو اپنی اندریوں(حواس) کے تجربے سے آپ یہ تک اندازہ نہیں لگا سکتے کہ چاند کے سیارے یا سورج کے سیارے میں کیا ہے، یہ سیارہ، اِس کائنات کے اندر۔ کیسے آپ قیاس آرائی سے روحانی دنیا کو سمجھ سکتے ہیں؟ یہ حماقت ہے۔

اِس لیے شاستر کہتے ہیں، اچِنتیاح خالو یی بھاوا نَ تامس تَرکینَ یوجَیت۔ اچِنتياح، جو سمجھ سے باہر ہے، آپ کی اندریہ ادراک(شعور) سے پرے ہے، بحث کرکے اسے سمجھنے کی کوشِش نہ کریں اور قياس آرائی نہ کریں۔ یہ حماقت ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں گُرُو کے پاس جانا ہوگا۔ تَد-وِگياناتھَم سَ گُرُوم ايوَ ابھِگَچچھیت، سَمِت-پانِح شروترِيَم برہمَ-نِشٹھَم (مُکُنڈَ اُپَنِشَد ١.٢.١٢). یہ طریقہ ہے۔